واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 

حضرت خواجہ فضیل ابن عیاض

رحمتہ  اللہ  علیہ   

 

آپ کا اسم گرامی فضیل ابن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    ہے۔ کنیت ابو علی اور ابو الفیض ہے۔آپ کے آباو اجداد کوفہ میں رہتے تھے ۔لیکن آپ سمر قند یا بخارا میں پیدا ہوئے۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    ابتدائی دور میں ٹاٹ کا لباس اونی ٹوپی اور گلے میں تسبیح ڈالے صحرابصحرا لوٹ مار کیاکرتے تھے اور ڈاکوؤں کے سردار تھے۔ ڈاکے سے حاصل ہونے والا پورا مال تقسیم کرکے اپنے لئےاپنی پسندیدہ کوئی شے رکھ لیا کرتے تھے۔ خود پانچ وقت نماز کے پابند تھے بلکہ آپ کا جو ساتھی نماز نہ پڑھتا اسے اپنی جماعت سے نکال دیتے تھے۔

تذکرۃالاولیا میں حضرت شیخ فریدالدین عطار  رحمتہ  اللہ  علیہ    لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی مالدار قافلہ اس جانب سے گزررہاتھا ان میں سے ایک شخص کے پاس بہت رقم تھی۔ چنانچہ اس نے لٹیروں کے خوف سے یہ سوچ کر کہ رقم بچ جائے تو بہت اچھا ہے ۔اس لئے وہ صحرا میں رقم دفن کرنے کے لئے جگہ کی تلاش میں نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک بزرگ مصلیٰ بچھائے تسبیح کررہے ہیں۔ اس نے اپنی رقم اس بزرگ کے پاس بطور امانت رکھوادی اور خود قافلے میں  پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سارا قافلہ لٹیروں کی نظر ہوچکاتھا۔ چنانچہ وہ شخص واپس ان بزرگ کے پاس اپنی رقم لینے کے لئے گیا تو کیا دیکھتاہے کہ وہی بزرگ لٹیروں کے ساتھ مل کر مال غنیمت تقسیم کررہے ہیں۔ یہ بزرگ حضرت فضیل بن عیاض   رحمتہ  اللہ  علیہ    تھے۔اس بیچارے نے دل میں اظہار تاسف کرتےہوئے کہا کہ میں نے تو خود ہی اپنی رقم ایک ڈاکو کے حوالےکردی ہے۔ اس پر حضرت فضیل بن عیاض   رحمتہ  اللہ  علیہ   نے اس شخص کو اپنے پاس بلا کر پوچھا یہاں کیوں آئے ہو۔ اس نے ڈرتے ڈرتےعرض کی کہ اپنی رقم واپس لینےکےلئے آیا ہوں۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے فرمایا کہ جس جگہ رکھ کر گئے تھے وہیں سے اٹھالو۔وہ شخص جب اپنی رقم لے کر واپس چلاگیا تو ساتھیوں نے پوچھا کہ آپ نے یہ رقم تقسیم کرنے کی بجائے واپس کیوں کردی۔ اس پر حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے فرمایا اس نے مجھ پر اعتماد کیا اور میں اللہ پر اعتماد کرتا ہوں۔

آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    کی توبہ کا واقعہ بڑاعجیب ہے۔ ایک سوداگر مرو سے ماورد جارہاتھا۔ مرو کے لوگوں نے اس سوداگر سے کہا کہ ایک سرکاری حفاظتی دستہ ساتھ لے چلو کیونکہ راہ میں فضیل راہزنی کرتا ہے۔ سوداگر نےجواب دیا کہ میں نے سنا ہے کو وہ رحم دل اور خداترس آدمی ہے۔ سوداگر نے حفاظتی دستےکی بجائے ایک خوش الہام قاری کو اپنے ساتھ لےلیا اورروانہ ہوگیا۔ جب یہ قافلہ اس مقام تک پہنچا جہاں آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    گھات لگائے بیٹھے تھے تو قاری اس وقت قرآن پاک کی سورۃ الحدید کی آیت نمبر ۱۶  تلاوت کررہاتھا جس کا ترجمہ یہ ہے:

" کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد کرنے کے وقت اور (قرآن) جو (خدائے) برحق (کی طرف) سے نازل ہوا ہے اس کے سننے کے وقت ان کے دل نرم ہوجائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو (ان سے) پہلے کتابیں دی گئی تھیں پھر ان پر زمان طویل گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔"

 

اس آیت کا حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    کے دل پر ایسااثر ہوا جیسے کسی نے تیر ماردیا ہو۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا یہ غارت گری کا کھیل کب تک جاری رہےگا وقت آگیا ہےکہ ہم اللہ کی راہ میں چل پڑیں۔ یہ کہہ کر وہ زاروقطار روئے اور راہزنی سے توبہ کرلی اور ایک صحرا کی طرف جانکلے جہاں کوئی قافلہ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ ان میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ فضیل ڈاکے مارتاہے اس لئے ہمیں راستہ تبدیل کرلینا چاہیے۔ یہ سن کر آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے فرمایا کہ اب آپ قطعاً بے خوف ہوجائیں کیونکہ میں نے راہزنی سے توبہ کرلی ہے پھر حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے ان لوگوں سے جن کو آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے اذیتیں پہنچائیں تھیں معافی طلب کی لیکن ایک یہودی نے معاف کرنے سےانکار کردیااور شرط پیش کی کہ اگر سامنے والی پہاڑی کو یہاں سے ہٹادو تو میں تمہیں معاف کردوں گا۔

حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے اس پہاڑی سے مٹی اٹھانی شروع کردی۔ ایک دن اتفاق سے ایسی آندھی آئی کہ پوری پہاڑی اپنی جگہ سے سرک گئی۔ یہودی نے یہ دیکھ کر آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    کو معاف کردیا لیکن کہا کہ میں نے یہ عہد کیا تھاکہ جب تک تم میرا مال واپس نہیں کروگے میں تمہیں معاف نہیں کرونگا۔ لہذا اس وقت تکیہ کے نیچے اشرفیوں کی تھیلی رکھی ہوئی ہے وہ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    اٹھاکر مجھے دےدیں تاکہ میری قسم کا کفارہ ہوجائے۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے وہ تھیلی اٹھاکر اس کو دیدی۔تھیلی حاصل کرنے کےبعد اس یہودی نے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    کے ہاتھ پر کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ اس یہودی نے کہا کہ میرے اسلام لانے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے تورات میں پڑھاتھا کہ صدق دل سے تائب ہونےوالا اگر خاک کو ہاتھ لگادے تو وہ سونابن جاتی ہے۔ میری تھیلی میں مٹی بھری ہوئی تھی اور آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے جب مجھ کو واپس کی تو وہ مٹی سونا بن گئی جس سے مجھے یقین ہوگیاکہ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    کامذہب سچاہے۔

ایک مرتبہ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے کسی سے استدعا کی کہ میں نے بہت جرائم کیے ہیں مجھے حاکم وقت کے پاس لےچلو تاکہ وہ مجھ پر شرعی حدود نافذ کرے۔ جب آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    کو حاکم وقت کے سامنے پیش کیاگیا تو اس نے انتہائی تعظیم و تکریم کے ساتھ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    کو واپس کردیا۔ جب آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے گھر پہنچ کر دروازے پر اپنی بیوی کو آواز دی تو بیوی نے ضف بھری آواز سن کر یہ سمجھا کہ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    زخمی ہوگئے ہیں لہذا اس نے پوچھاکہ کہاں زخم آیا ہےتو حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے فرمایا کہ آج میرے قلب پر زخم لگا ہے۔ میں سفر حج پر جاناچاہتا ہوں اگر تم چاہو تو میں تمہیں طلاق دےدوں کیونکہ اس راستے میں بہت زیادہ مصیبتیں جھیلنی پڑیں گی۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    کی زوجہ محترمہ نے کہا کہ میں خادمہ بن کر تمہارے ہمراہ رہوں گی۔ چنانچہ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے اپنی زوجہ محترمہ کو بھی ہمراہ لے لیا اور سفر حج پر روانہ ہوگئے۔

حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے مدتوں حضرت امام ابو حنیفہ   رحمتہ  اللہ  علیہ    کی خدمت میں رہ کرعلم حاصل کیااور عبادت وریاضت میں معراج کمال تک رسائی حاصل کی۔اس کے بعد حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    بصرہ آئے ان  کا ارادہ تھا کہ خواجہ حسن  بصری   رحمتہ  اللہ  علیہ    کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف بیعت حاصل کریں لیکن ان دنوں حضرت حسن بصری  رحمتہ  اللہ  علیہ    اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے چنانچہ آپ حضرت عبدالواحد   رحمتہ  اللہ  علیہ    کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے مرید ہو گئے۔

حضرت فضل بن ربیع فرماتے ہیں  کہ میں ہارون الرشید کے ساتھ حج کے لیے  مکہ مکرمہ  گیا ۔حج سے فارغ ہونے کے بعد  مجھ سے کہا کہ مردان خدا میں سے اگر کوئی یہاں موجود  ہو تو ہم اس کی زیارت کے لیے جائیں گے۔میں ان کو لے کر حضرت عبدالرزاق صنعانی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ کے ذمے کچھ قرضہ ہو تو  میں ادا کر دوں آپ نے اشارہ تو ہارون الرشید نے آپ کا قرضہ ادا کر دیا۔

حضرت فضل بن ربیع فرماتے ہیں  کہ جب ہم واپس آئے تو  ہارون الرشید نے کہا کہ میرا دل کسی اور بزرگ سے ملنے کا متمنی ہے۔میں کہا یہاں حضرت سفیان بن عینیہ بھی جلوہ گر ہیں۔ ہارون الرشید نے کہا مجھے ان کے پاس لے چلو۔ میں ان کو لے کر حضرت سفیان بن عینیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ کے ذمے کچھ قرضہ ہو تو  میں ادا کر دوں آپ نے اشارہ تو ہارون الرشید نے آپ کا قرضہ ادا کر دیا۔

حضرت سفیان بن عینیہ سے ملاقات کرنے کے بعد جب ہم واپس آئے تو ہارون الرشید نے کہا اے فضل ابھی میرا دل سیر نہیں ہوا کسی اور بزرگ سے بھی ملاقات کراؤ۔اس پر میں انہیں  حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    کی خدمت میں لے آیا۔آپ اس وقت حجرے میں بیٹھے چراغ کی روشنی میں قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے۔ میں نے دستک دی  اندر سے حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے پوچھا کون ہے۔ میں نے جواب دیا امیرالمومنین ہارون الرشید ہیں۔ انہوں نے فرمایا مجھے امیرالمومنین سے اور انھیں مجھ سے کیا سروکار۔ اس کےبعد انہوں نے چراغ بجھادیا اور دروازہ کھول دیا ۔ ہارون الرشید حجرے کے اندر آیا اور حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    کو ڈھونڈنے لگا۔ اس کا ہاتھ حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    کے بدن کو لگا تو حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے چلا کر کہا ہارون تمہارے ہاتھ بڑے نرم ہیں یہ تو دوزخ کی آگ کی لکڑی بننے والے ہیں۔

یہ سن کر ہارون الرشید رونےلگا اور کہنے لگا کہ حضرت مجھے نصیحت فرمائیں۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے فرمایا تمہارے والد حضورﷺ کے چچا تھے  کوشش کرو کہ قیامت کے دن اپنے باپ اور چچا سے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ ہارون الرشید نے کہا مجھے اور نصیحت کریں حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اللہ کی مخلوق پر رحم کرو۔ ادب سیکھو اور آل رسول اور صحابہ رسول کی عزت کیا کرو۔ ہارون الرشید نے کہا اگر آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    پر کوئی قرضہ ہے تو حکم کریں میں ادا کردوں۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے فرمایا مجھ پر قرضہ تو ہے مگر وہ میں ہی ادا کرسکتا ہوں اور وہ اطاعت الٰہی کا قرضہ ہے ۔ یہ سن کر ہارون الرشید اور حضرت فضل بن ربیع دونوں رونے لگے اور روتے ہوئے باہر آگئے۔ حضرت فضل بن ربیع فرماتے ہیں کہ باہر آکر ہارون الرشید نے کہا کہ اے فضل بادشاہ درحقیقت حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    ہیں اور یہ سب ان کے دبدبہ کی دلیل ہیں جو دنیا اور آخرت میں انہیں حاصل ہے۔

حضرت خواجہ ابراہیم ادہم رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت خواجہ خواجہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ داٶو طائی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے معاصر تھے۔آپ حقائق و معارف میں یگانہ ٔروز گار تھے۔نقل ہے کہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے صاحبزادے کو گود میں لیے پیار کر رہے تھے کہ بچہ بولا اباجان! آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ہاں۔ بچے نے کہا: آپ خدا سے محبت کرتے ہیں؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پھر جواب دیا: ہاں۔ بچہ گویا ہوا: اباجان! ایک دل میں دوچیزوں کی محبت سما سکتی ہے؟آپ رحمۃ اللہ علیہ فوراً سمجھ گئے کہ بچے کی زبان پہ کس کی جانب سے یہ سخن عارفانہ جاری ہوا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً بچے کواپنے آپ سے علیحدہ کر دیا اور مشغول حق ہو گئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’اگر تم سے پوچھا جائے کہ خدا سے محبت کرتے ہو تو جواباً خاموشی اختیار کیا کرو اگر تم کہوگے ’’نہیں‘‘ تو یہ کلمہ کفر ہے اور اگر جواب دو گے ’’ ہاں‘‘ تو تمہارا یہ فعل محبان خدا کے طریقہ کے خلاف ہوگا۔

حضرت فضیل بن عیاض  رحمتہ  اللہ  علیہ    ۳ ربیع الاول ۱۸۷ہجری کواس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    کا مزار مکہ معظمہ میں قبرستان جنت المعلیٰ میں ہے۔ یہ مقام حضرت ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے مزار کے پاس ہے۔